اختیارگل
پاکستان دنیا کے ان دو ملکوں میں سے ایک ہے جہاں پولیو (پولیو مائیلیٹس) کا وائرس ابھی تک موجود ہے، اور ملک کے قبائلی علاقے اس مرض کے خاتمے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ یہاں صحت کے عالمی اداروں، حکومت پاکستان اور پولیو ورکرز کی انتھک محنت کے باوجود، پولیو کے خلاف جنگ صحت سے کہیں زیادہ سلامتی اور سماجی محاذ پر لڑی جا رہی ہے۔
حالیہ اعداد و شمار: ایک مختصر جائزہ
خیبر پختونخوا اور قبائلی اضلاع میں اس سال پولیو کے ۳۴ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں، جو ملک بھر میں رپورٹ ہونے والے کل کیسز کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہ خطہ اب بھی وائرس کے پھیلاو¿ کا ایک اہم مرکز ہے۔ حالیہ ہفتوں میں باجوڑ اور شمالی وزیرستان سے نئے کیسز سامنے آئے ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وائرس مقامی سطح پر گردش کر رہا ہے۔
سلامتی کے محاذ پر خون ریز جنگ
پولیو ورکرز، جن میںمرد اور خواتین ہیںپولیو سے بچاﺅکے اس جنگ کی اصل ہیرو ہیں، لیکن انہیں اپنی جانوں کے خطرے سے دوچار ہو کر کام کرنا پڑتا ہے۔
· دہشت گردوں کے حملے:
گذشتہ ایک دہائی سے،مختلف گروہوں نے پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ یہ مہم مغربی ممالک کی جاسوسی کا پردہ ہے اور یہ قطرے مسلمانوں کو بانجھ پن یا دیگر امراض میں مبتلا کرنے کا باعث ہیں۔
حالیہ واقعات
:
صرف گذشتہ سال ۲۰۲۲ میں، پولیو ورکرز اور ان کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں پر ۲۰ سے زائد حملے ہوئے، جن میں ۱۵ افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس سال بھی، جنوبی وزیرستان اور کے پی کے کے بعض اضلاع میں ورکرز کو دھمکیوں کا سامنا ہے۔
· سیکیورٹی اہلکاروں کی قربانیاں:
پولیو ٹیموں کی حفاظت کرنے والے پولیس اور فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کے جوان بھی ان حملوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ انہوں نے پولیو کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔
سماجی اور ثقافتی رکاوٹیں: ویکسین سے انکار
صرف دہشت گرد ہی نہیں، بلکہ گہری سماجی اور ثقافتی جڑیں بھی اس جنگ میں رکاوٹ ہیں۔
غیرت اور پردے کے نام پر: قبائلی معاشرے میں پردے کے سخت تصورات کی وجہ سے بہت سے گھرانے اپنے بچوں کو خواتین پولیو ورکرز کو دکھانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ کئی بار مرد ورکرز بھی گھر کے اندر جانے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔
جعلی معلومات اور سازشی نظریات:
سوشل میڈیا اور مقامی سطح پر یہ غلط معلومات پھیلائی جاتی ہیں کہ پولیو کے قطرے غیر اسلامی ہیں، یہ بچوں کی افزائش کی صلاحیت متاثر کرتے ہیں، یا یہ کہ یہ ایک “عیسائی مہم” ہے۔ ان جعلی خبروں نے عوام کے ذہنوں میں شدید شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔
بنیادی صحت کی سہولیات کا فقدان: لوگوں کا کہنا ہے کہ جب بنیادی صحت کی سہولیات (صاف پانی، علاج معالجے کی سہولیات) میسر نہیں ہیں، تو صرف پولیو کے قطرے پلانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ یہ احساس محرومی بھی ویکسینیشن کے کام میں رکاوٹ بنتا ہے۔
حکومتی اور عالمی کوششیں: ایک امید کی کرن
ان تمام چیلنجز کے باوجود، حکومت پاکستان، عالمی ادارہ صحت (WHO) اور دیگر شراکت دار ہمت نہیں ہار رہے۔
مینیجڈ اپروچ: مشکل علاقوں میں “مینیجڈ ٹرانزٹ پوائنٹس” قائم کیے گئے ہیں جہاں سفر کرنے والے خاندانوں کے بچوں کو قطرے پلائے جاتے ہیں۔
· مذہبی اسکالرز کا کردار:
حکومت نے ملک کے معروف علماءکرام اور مقامی قبائلی رہنماو¿ں کو اس مہم میں شامل کیا ہے تاکہ ویکسین کے خلاف پھیلائے گئے شکوک و شبہات کو دور کیا جا سکے۔
سکیورٹی کا بہتر انتظام: پولیو ورکرز کو ہر ممکن حفاظت مہیا کی جا رہی ہے۔ ہر ٹیم کے ساتھ مسلح سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے جا رہے ہیں اور حساس علاقوں میں خصوصی آپریشنز کیے جا رہے ہیں۔
نتیجہ:
پولیو کے خلاف جنگ محض صحت کی جنگ نہیں رہی، یہ انتہا پسندی، جہالت اور غربت کے خلاف ایک جامع جنگ ہے۔ جب تک قبائلی علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ بہتر نہیں ہوگا، تعلیم عام نہیں ہوگی، اور دہشت گردی کی لعنت کا خاتمہ نہیں ہوگا، تب تک پولیو جیسے مرض کا مکمل خاتمہ ایک خواب ہی رہے گا۔ تاہم، پولیو ورکرز کی بے مثال ہمت، سیکیورٹی اہلکاروں کی قربانیاں اور حکومت کی عزم اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی راہ میں امید کی کرن ہیںیہ جنگ جاری ہے، اور اسے جیتنا ہوگا۔