پیر بابا بونیر رپورٹ: جنید طورو
کلاؤڈ برسٹ اور فلیش فلڈز نے بونیر کی حسین وادی کو اجاڑ کر رکھ دیا۔ جہاں کبھی گھروں سے قہقہے گونجتے تھے، وہاں اب خاموشی اور آنسو ہیں۔ ایک ہی رات نے پورے پورے خاندان مٹا دیے، اور اسپتالوں میں بس جسد خاکی رہ گئے۔
اس دل خراش سانحے میں پیر بابا ٹی ایچ کیو اسپتال کے چیف ریڈیالوجی ٹیکنیشن سردار رحمان اور ان کی اہلیہ پروانہ سردار نے وہ فرض نبھایا جو بڑے بڑے ادارے بھی انجام نہ دے سکے۔ دونوں نے اپنے ہاتھوں سے سیکڑوں لاشوں کو غسل دیا، کفن پہنایا اور لواحقین کے حوالے کیا۔
لاشوں کا پہلا قافلہ
سردار رحمان نے خیبر پوائنٹ کو بتایا کہ سیلاب کے پہلے دن جب ان کی ڈیوٹی ختم ہونے کو تھی، اسپتال کی پہلی ایمبولینس پہنچی جس میں دو خواتین کی لاشیں تھیں۔ اس کے بعد ایمبولینسیں آتی گئیں، اور ایک کے بعد ایک لاش اترتی گئی۔ صرف پہلے دن 52 لاشیں آئیں، زیادہ تر خواتین۔ ان کی حالت ایسی تھی کہ دیکھنا بھی مشکل تھا۔
چادروں سے پردے، کمی کے باوجود خدمت
خواتین اسٹاف کی کمی تھی۔ ایسے میں سردار رحمان نے اپنی اہلیہ پروانہ سردار کو گھر سے بلایا مقامی خواتین نے بھی مدد کے لئے چادریں پیش کیں تاکہ خواتین کی میتوں کو پردہ دیا جا سکے۔ پروانہ سردار کہتی ہیں:
“ان لاشوں کو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ خواتین نے اپنی آخری سانس تک مزاحمت کی۔”
پانچ دنوں میں سردار رحمان اور ان کی ٹیم نے 133 مردوں اور 70 خواتین کی لاشیں وصول کیں۔ صرف چار افراد نے یہ خدمت انجام دی۔ اسپتال کا عملہ اور ڈاکٹرز لاشوں کی حالت اور بدبو کے باعث قریب نہ آ سکے، لیکن سردار رحمان اور ان کی بیوی نے ہمت نہ ہاری۔
شناخت کا دردناک مرحلہ
شناخت سب سے کٹھن لمحہ تھا۔ لواحقین کبھی کپڑے، کبھی ہاتھ کے کنگن، اور کبھی چہروں کے نشان دیکھ کر اپنے پیاروں کو پہچانتے۔ ایک ہی خاندان کے 15 افراد کی لاشیں ایک ساتھ حوالے کی گئیں۔ ایک اور خاندان کے 20 افراد ایک ہی دن دفن ہوئے۔ یہ مناظر سب کے دل دہلا دینے کے لئے کافی تھے
لاشوں کی حوالگی کے وقت پورا اسپتال نوحہ کناں تھا۔
ایک ماں نے روتے ہوئے کہا:
“میری بیٹیاں اور ماں سب ایک ساتھ چلی گئیں۔ کس کو آواز دوں اور کس کو دفناؤں؟”
ایک بزرگ نے پوتے کی لاش اٹھاتے ہوئے کہا:
“یہ بچہ ہمارے گھر کی رونق تھا۔ اب گھر ہے مگر آواز نہیں ہے۔”
ایک نوجوان نے کہا:
“میرا پورا خاندان ایک رات میں ختم ہو گیا۔ میں زندہ ہوں مگر زندگی کا سہارا نہیں رہا۔”
سردار رحمان نے کہا:
“ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ لاشوں سے بدبو آ رہی ہے یا حالت خراب ہے۔ یہ وقت دل بڑا کرنے کا تھا۔ ہم خدمت کو عبادت سمجھتے ہیں، اور یہ خدمت ہماری آخری سانس تک جاری رہے گی۔”