پشاور ::: جنید طورو
خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں اور اچانک کلاؤڈ برسٹ کے واقعات نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے، جس میں بونیر سب سے زیادہ متاثرہ ضلع کے طور پر سامنے آیا ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق اب تک 314 افراد جاں بحق اور 156 زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے صرف بونیر میں 209 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
کلاؤڈ برسٹ کے باعث 62 مکانات مکمل تباہ اور 97 جزوی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ دیگر متاثرہ اضلاع میں سوات، باجوڑ، تورغر، مانسہرہ، شانگلہ اور بٹگرام شامل ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں 264 مرد، 29 خواتین اور 21 بچے شامل ہیں، جب کہ زخمیوں میں 123 مرد، 23 خواتین اور 10 بچے شامل ہیں۔
بونیر کا خاندانی سانحہ
بونیر کے علاقے بیشنوئی میں ایک دل دہلا دینے والے سانحے میں ایک ہی خاندان کے 15 افراد سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ مقامی افراد کے مطابق رات گئے ان کا گھر پانی کی لپیٹ میں آ گیا۔
“ہم نے ایک ہی رات میں اپنے 15 پیاروں کو دفنایا، اور تین ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اگر یہ قیامت نہیں تو پھر کیا ہے؟” ایک سوگوار رشتہ دار نے روتے ہوئے کہا۔
انہوں نے بے بسی کے عالم میں اپنی آنکھوں کے سامنے اہلِ خانہ کو ڈوبتے دیکھنے کو ناقابلِ برداشت قرار دیا۔ “ایک ساتھ 15 جنازے اٹھانا میری کمر توڑ گیا ہے اور میری روح کو چیر کے رکھ دیا ہے،” انہوں نے کہا۔
غم زدہ خاندان نے حکومت سے کوئی شکوہ تو نہ کیا لیکن فوری اقدامات کی اپیل ضرور کی۔ “ایسے قہر میں حکومت بھی بے بس ہے، لیکن پہاڑوں میں غیر ضروری کان کنی اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو روکا جانا چاہئے۔ اگر ہمارے پہاڑ آج بھی سرسبز ہوتے تو شاید یہ سانحہ نہ ہوتا،” انہوں نے شکوہ کیا۔
یہ واقعہ ایک بار پھر ماحولیاتی بگاڑ اور آفات سے نمٹنے کی تیاری کے حوالے سے سنگین سوالات کھڑا کر گیا ہے۔
کلاؤڈ برسٹ اور موسمیاتی تبدیلی
پشاور یونیورسٹی کے محکمہ ماحولیاتی سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس نے وضاحت کی کہ کلاؤڈ برسٹ یعنی کسی چھوٹے رقبے پر اچانک اور شدید بارش ان تباہ کاریوں کی بڑی وجہ ہیں۔
یہ اس وقت رونما ہوتے ہیں جب 20 سے 30 مربع کلومیٹر رقبے پر فی گھنٹہ 100 ملی میٹر سے زائد بارش ہو۔
انہیں 1000 سے 3000 میٹر بلند کُمولو نیمبس بادل پیدا کرتے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے باعث فضا میں نمی بڑھنے سے یہ واقعات مزید شدت اختیار کرتے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں برفانی جھیلوں کے پھٹنے سے تباہی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
“ان کی پیش گوئی مشکل ہے کیونکہ یہ اچانک اور محدود علاقوں میں رونما ہوتے ہیں،” ڈاکٹر نفیس نے خبردار کیا۔
انسانی اور معاشی نقصان
پاکستان بھر میں 2025 کے سیلاب اب تک 500 کے قریب جانیں نگل چکے ہیں، جن میں صرف باجوڑ میں 171 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔
بحالی کے لیے عالمی تعاون بھی جاری ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد ورلڈ بینک نے سندھ فلڈ ایمرجنسی ری ہیبیلیٹیشن پروجیکٹ (SFERP) کے تحت 50 کروڑ امریکی ڈالر فراہم کیے، جس کے ذریعے 36 لاکھ سے زائد افراد کو پائیدار انفراسٹرکچر سے فائدہ ملا۔ اس کے علاوہ 1 لاکھ 39 ہزار گھرانوں کو روزگار کی عارضی معاونت ملی، جن میں سے 45 فیصد خواتین تھیں۔
خیبرپختونخوا حکومت نے بھی ریلیف اور بحالی کے لیے 1.5 ارب روپے جاری کیے ہیں اور ماحولیاتی طور پر پائیدار ڈھانچے میں سرمایہ کاری پر زور دیا ہے۔
ریسکیو اور امدادی کارروائیاں
حکام نے بڑے پیمانے پر وسائل بروئے کار لائے ہیں:
3 فوجی بٹالین، 223 ریسکیو اہلکار، 205 ڈاکٹر، 260 پیرا میڈیکس، 400 پولیس اہلکار اور 300 سول ڈیفنس رضاکار تعینات۔
10 ایکسکاویٹرز، 22 ٹریکٹرز، 10 ڈی واٹرنگ پمپس، 5 واٹر باؤزرز اور 10 بلڈوزرز ملبہ ہٹانے میں مصروف۔
اب تک 3500 افراد کو محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا؛ خوراک، ادویات، خیمے اور کمبل تقسیم کیے گئے۔
پیر بابا روڈ کے 6 کلومیٹر اور گوکند روڈ کے 3.5 کلومیٹر حصے کو جزوی طور پر بحال کر دیا گیا۔
مستقبل کی تیاری
ماہرین نے آئندہ تباہیوں سے بچاؤ کے لیے ہنگامی اقدامات پر زور دیا ہے:
دریاؤں اور ندی نالوں کے قریب کم از کم 200 فٹ تک تعمیرات پر پابندی۔
خطرناک علاقوں کا نقشہ تیار کر کے انخلا کا نظام وضع کیا جائے۔
خاص طور پر خواتین اور بچوں کے لیے لائف جیکٹس کا ذخیرہ رکھا جائے۔
پہاڑوں پر شجرکاری کو فروغ دیا جائے تاکہ خطرات کم ہوں۔
کمیونٹی کی سطح پر تربیتی مہمات چلائی جائیں تاکہ ہنگامی صورت حال میں بروقت ردعمل ممکن ہو۔
بونیر کے 2025 کے کلاؤڈ برسٹ بیشنوئی کے خاندانی سانحے سے لے کر صوبے بھر کی تباہی تک ایک بار پھر یہ واضح کرتے ہیں کہ پاکستان کس قدر موسمیاتی تبدیلی کے رحم و کرم پر ہے۔ اگر فوری منصوبہ بندی اور لچکدار ڈھانچے میں سرمایہ کاری نہ کی گئی تو آئندہ کلاؤڈ برسٹ کے واقعات مزید خوفناک تباہی لا سکتے ہیں۔