• Home  
  • سیلاب کے سائے تلے: بونیر کیمپوں میں عورتوں کی خاموش چیخیں
- KP

سیلاب کے سائے تلے: بونیر کیمپوں میں عورتوں کی خاموش چیخیں

پشاور :: رپورٹ: جنید طورو سیلاب کا پانی اتر گیا، مگر اس کے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ بونیر کے پہاڑوں کے دامن میں لگے کیمپوں میں بیٹھی خواتین کی آنکھوں میں وہی خوف جھلکتا ہے جو انہوں نے پانی کے ریلے کے ساتھ جھیلا تھا۔ دن کی تپتی دھوپ اور رات کی سیاہ خاموشی […]

Untitled design 9

پشاور :: رپورٹ: جنید طورو

سیلاب کا پانی اتر گیا، مگر اس کے زخم اب بھی تازہ ہیں۔ بونیر کے پہاڑوں کے دامن میں لگے کیمپوں میں بیٹھی خواتین کی آنکھوں میں وہی خوف جھلکتا ہے جو انہوں نے پانی کے ریلے کے ساتھ جھیلا تھا۔ دن کی تپتی دھوپ اور رات کی سیاہ خاموشی میں ان کے دکھ اور بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یہ مائیں، بہنیں اور بیٹیاں صرف ایک چھوٹے سے ٹینٹ اور خالی پانی کی ٹینکیوں کے سہارے جی رہی ہیں ان کی زندگی گویا ایک نہ ختم ہونے والی آزمائش میں بدل چکی ہے۔

بونیر کے گاؤں گانگشال میں 56 سے زائد ٹینٹ لگائے گئے ہیں، لیکن حالات نہایت ابتر ہیں۔ ایک ایک ٹینٹ میں دس سے بیس افراد رہنے پر مجبور ہیں جبکہ سونے کے لیے صرف ایک فوم دستیاب ہے۔ یہ کیمپ چونکہ بلند جگہ پر لگائے گئے ہیں، مقامی لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر دوبارہ بارش ہوئی تو یہ سب کچھ بہہ سکتا ہے۔

ہم عورتیں ٹینٹ سے باہر بھی آزادانہ نہیں نکل سکتیں،” 32 سالہ گل مینا، جو چار بچوں کی ماں ہیں، نے بتایا۔ نہ پرائیویسی ہے نہ تحفظ۔ رات کو بہت خوف محسوس ہوتا ہے اور دن میں بچوں کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک ہی فوم پر ساری فیملی گزارا کر رہی ہے۔

مقامی تنظیموں نے بھی حالات پر تشویش ظاہر کی ہے۔
یہاں کل 59 کیمپ لگے ہیں لیکن حکومت کی طرف سے کوئی مؤثر امداد نہیں پہنچی،” جبگئی ویلفیئر فاؤنڈیشن کے جنرل سیکریٹری لیاقت نے کہا۔ خواتین سب سے زیادہ مشکلات کا شکار ہیں۔ نہ واش روم ہیں، نہ ہائیجین کٹس، نہ پردے کا انتظام۔ بیماریاں پھیل رہی ہیں اور پانی کی ٹینکیاں خالی ہیں۔

صاف پانی کی کمی سب سے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ خواتین کو غیر محفوظ ذرائع سے پانی لانا پڑتا ہے جبکہ خوراک بھی غیر معیاری اور خراب ہو جاتی ہے کیونکہ صفائی اور ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔

خواتین کی صحت کے مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ متاثرہ خواتین میں جلدی بیماریاں، پیشاب کی نالی کے انفیکشن اور تولیدی امراض عام ہو رہے ہیں۔
حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی مائیں خاص طور پر متاثر ہیں۔

میں سات ماہ کی حاملہ ہوں مگر یہاں کوئی لیڈی ڈاکٹر موجود نہیں، سیلاب سے بے گھر ہونے والی شازیہ بی بی نے بتایا۔اکثر کمزوری اور چکر محسوس ہوتے ہیں لیکن نہ مناسب خوراک ہے نہ طبی معائنہ مجھے اپنے بچے کی فکر ہے۔

بین الاقوامی ادارے بتدریج مدد فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یو این ایف پی اے کے پروگرام آفیسر محمد ذکریا نے بتایاہم نے ابتدائی طور پر 200 ہائیجین کٹس بونیر میں تقسیم کی ہیں، اور اب ہم جلد ہی بونیر اور شانگلہ میں نفسیاتی و سماجی معاونت کے پروگرام شروع کرنے جا رہے ہیں۔

ادھر صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ ریلیف آپریشن جاری ہے۔ صوبائی مشیر صحت احتشام خان کے مطابق خواتین ڈاکٹرز سمیت میڈیکل ٹیمیں بونیر کے متاثرہ علاقوں میں بھیجی گئی ہیں۔ طبی کیمپس میں خاص طور پر خواتین کو سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔ اب تک 576 کامیاب ڈیلیوری کیسز سرکاری ڈاکٹروں نے مکمل کیے ہیں۔

تاہم زمینی حقائق مختلف ہیں۔ کیمپوں میں موجود حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی مائیں اور نوعمر لڑکیاں اب بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔خواتین کی ذہنی صحت بھی شدید متاثر ہو رہی ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے۔

فی الحال بونیر کے سیلاب متاثرہ کیمپوں میں خواتین اپنی عزت، صحت، اور زندگی کی بقاء کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں ایک ایسی جدوجہد جو حکومت اور اداروں کی توجہ کی منتظر ہے۔

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Your trusted source for the latest news and information from across Pakistan, covering all major categories including politics, business, sports, and current affairs.

Email Us: info@khyberpoint.com

Contact: +92 336 9101079

Copyright © 2025 Khyber Point, All rights reserved.